تقاضے اور انصاف

in #requirements6 years ago

پہلی بات: قول سلیم مسلمہ ہے کہ اقتدار کفر سے قائم رہ سکتا ہے لیکن ظلم سے نہیں!‘ دوسری بات: اگر کسی ملک میں یہ معلوم کرنا مقصود ہو کہ وہاں برسراقتدار کون ہے تو دیکھ لیں کہ وہاں کس طبقے کیخلاف بات کرنے کی آزادی نہیں‘ان دو باتوں کو ذہن میں رکھتے ہوئے عدالت عظمیٰ کا منظر دیکھیں جہاں لاپتہ افراد کے لواحقین کی آہیں اور گریہ زاری سے درودیوار لرز گئے‘اس قسم کا ردعمل اس لئے بھی دیکھنے میں آیا کیونکہ آج تک کسی بھی بڑی عدالت نے لاپتہ افراد کے لواحقین کے سر پر یوں شفقت کا ہاتھ نہیں رکھا تھا کہ ان کی آہیں نکل گئیں‘عدالت کے روبرو گریہ اور غم سے چیخ و پکار کی روایت عام نہیں اور یہ عمل عدالت توہین کی نیت سے بھی نہیں کیا گیا۔ جن کے پیارے لاپتہ ہیں انکے دلوں پر کیا گزر رہی ہے یہ صرف وہی جانتے ہیں‘اپنے پیاروں کے غائب ہونے کے غم میں جذبات سے مغلوب ہونے والوں کو انصاف ملنے کی امید تو ہے لیکن وہ نہیں جانتے کہ لاپتہ افراد اب اس دنیا میں ہیں بھی یا نہیں اور کیا انکے عدالت سے رجوع کرنے کے بعد اس بات کا امکان رہے گا کہ وہ کبھی اپنے پیاروں کو زندہ مل سکیں گے! المیہ ہے کہ کئی لوگ کئی دہائیوں سے لاپتہ ہیں اور انکے لواحقین در بہ در کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں‘انصاف مانگ رہے ہیں اور چاہتے ہیں کہ اگر انکے لواحقین کسی جرم میں ملوث ہیں تو ریاستی قوانین کے مطابق ان سے معاملہ کیا جائے‘ماورائے عدالت کسی بھی حکومتی ادارے کو قانون ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں ہونی چاہئے‘لاپتہ افراد کے لواحقین کا عدالت سے رجوع کرنا باعث برکت بھی ہے کہ اس معاملے کے ملک کی اعلیٰ ترین عدالت میں شنوائی کے بعد ایسے نئے واقعات رونما نہیں ہو رہے جن میں لاپتہ ہونے والے افراد کے لواحقین سراپا احتجاج بنیں‘ریاست کی اپنی مجبوریاں ہوتی ہیں لیکن آئین کو غیراعلانیہ معطل کرنے کی اجازت نہیں ہونی چاہئے۔چیف جسٹس آف پاکستان میاں ثاقب نثار ان دنوں لاپتہ افراد کا مقدمہ کراچی میں سن رہے ہیں ۔

جہاں انسپکٹر جنرل سندھ اور حساس اداروں کے اعلیٰ اہلکار عدالت میں پیش ہوئے‘چیف جسٹس نے حکام سے مکالمے میں کہاکہ ’مجھے بڑا افسوس ہو رہا ہے‘پہلے بھی کہہ چکا ہوں لاپتہ افراد کو بازیاب کرائیں‘اگر انکے پیاروں کیساتھ حادثہ ہوچکا تو وہ بھی بتا دیں‘ مجھے یقین نہیں کہ میرے اداروں نے اٹھایا ہوگا‘ اگر کسی ادارے نے حراست میں رکھا ہوا ہے تو بتایا جائے۔‘ دوران سماعت لاپتہ افراد کے اہل خانہ نے چیف جسٹس کے سامنے شکایات کے انبار لگا دیئے‘لاپتہ افراد کے لواحقین حساس اداروں کے نمائندوں کو مخاطب کر کے الزامات لگاتے رہے‘انکاکہنا تھا کہ ہمارے پیاروں کو طویل عرصہ سے غائب کردیا گیا لاشیں بھی نہیں مل رہیں‘ اس دوران کئی لواحقین نے رونااور شور مچانا شروع کردیا‘ ایک خاتون نے جذبات میں آکر ڈائس پر مکا تک مار دیا‘ عدالت میں شور شرابے پر چیف جسٹس نے برہمی کا اظہار کیا اور بعدازاں ڈائس پر ہاتھ مارنے والی خاتون نے غیر مشروط معافی مانگ لی۔ پاکستان میں افراد کے لاپتہ ہونے کی مدت کا تعین نہیں کیا جا سکتا مگر ان کی بازیابی کے حوالے سے کمیشن جسٹس (ر) جاوید اقبال کی سربراہی میں تشکیل دیا گیا تھا۔ جسٹس (ر) جاوید اقبال ان دنوں نیب کے سربراہ اور لاپتہ افراد سے متعلق کمیشن کے سربراہ بھی ہیں چند ماہ قبل قائمہ کمیٹی کے اجلاس کے دوران سینیٹر فرحت اللہ بابر نے کمیشن کی تشکیل کا مقصد بیان کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’لاپتہ افراد کی گمشدگی کے حوالے سے پہلا مقصد یہ تعین کرنا تھا کہ انفرادی یا سرکاری اداروں کی سطح پراسکا کون ذمہ دار ہے اور دوسرا افراد کو غائب کرنے کے ذمہ داروں کیخلاف قانونی چارہ جوئی کا آغاز کیا جائے‘لاپتہ افراد کا مسئلہ گھمبیر اور دیرینہ ہے‘جسٹس (ر) جاوید اقبال کی سربراہی میں کمیشن کے کام کے مثبت نتائج ضرور سامنے آئے مگر اسے کمیشن کی مکمل کامیابی سے تعبیر نہیں کیا جا سکتا اگر کمیشن نے مکمل کامیابی حاصل کر لی ہوتی تو کراچی میں لاپتہ افراد کے لواحقین اپنے دکھ کا یوں اظہار کرتے نظر نہ آتے‘مذکورہ کارکردگی رپورٹ میں بھی لاپتہ افراد کے لواحقین کے درد سلگتے محسوس ہوتے ہیں‘۔

اس رپورٹ میں کہا گیا‘ مختلف وجوہ کے باعث لاپتہ ہونے والے شہریوں کی بازیابی سے متعلق بنائے گئے کمیشن کی کوششوں سے 3274 افراد بازیاب ہو چکے ہیں‘کمیشن کو مجموعی طور پر چار ہزار دوسو سے زائد افراد کے لاپتہ ہونے کی شکایات موصول ہوئی تھیں‘ پراسرار طور پر لاپتہ ہونے والے شہریوں کی بازیابی تقریباً ایک دہائی تک بہت بڑا چیلنج بنی رہی‘ جو لوگ واقعتا لاپتہ ہوئے اس کا تعین کرکے ان کو بازیاب کرانے کے لئے کمیشن کو مزید فعالیت سے کام کرنا ہوگا چیف جسٹس نے لاپتہ افراد کی بازیابی کے لئے درخواستوں پر کاروائی اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو لاپتہ افراد کے حوالے سے خصوصی سیل قائم کرنے کا حکم دیا ہے‘ چیف جسٹس سے اس حوالے سے بساط بھر فعالیت کی امید ہے اور یہ بھی اُمید ہے کہ انسانی حقوق کی ترجیحات انسانی ہمدردی کے جذبے کے تحت کی جائیں گی۔