دل میں خیالِ نرگسِ جانانہ آگیا
پھولوں سے کھیلتا ہوا دیوانہ آگیا
بادل کے اٹھتے ہی مے و پیمانہ آگیا
بجلی کے ساتھ ساتھ پری خانہ آگیا
مستوں نے کیا اس ادا سے کیا رقصِ نو بہار
پیمانہ کیا کہ رقص میں مے خانہ آگیا
اس چشمِ مے فروش کی تاثیر کیا کہوں
ہونٹوں تک آج آپ ہی پیمانہ آگیا
معلوم کس کو قیس کی دیوانگی کی شان
ہنگامہ سا بپا ہے کہ دیوانہ آگیا
اختر غضب تھی عہد جوانی کی داستاں
آنکھوں کے آگے ایک پری خانہ آگیا۔
اختر شیرانی صاحب کا نہایت عمدہ کلام!